کچھ عرصہ سے جاوید غیر معمولی تھکاوٹ اور طبیعت پر بوجھ محسوس کر رہا تھا۔ جہاں وہ پہلے مسلسل آٹھ دس گھنٹے بلاتکان کام کرتا تھا وہاں اب مشکل سے دو تین گھنٹے خود کو کام پر مجبور کر پاتا۔ رات میں نیند بھی ٹھیک طرح سے نہ آتی، پیاس اور پیشاب کی کثرت کا عمل دن میں بھی جاری رہتا۔
شروع میں جاوید نے سوچا شاید دفتر میں حالیہ کشمکش کی وجہ سے وہ دباؤ کا شکار ہے۔ پھر اسے یہ بھی خیال آیا شاید کام کی زیادتی اس کی صحت کو متاثر کر رہی ہے۔ کبھی سوچتا شاید وہ بڑھاپے کا شکار ہو رہا ہے حالانکہ اس کی عمر 45 سال کے لگ بھک تھی۔ اس نے بارہا ان سوچوں سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا چنانچہ اس نے ان خیالات اور احساسات کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ دراصل وہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے ہمیشہ خوفزدہ رہا تھا۔
کچھ عرصہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، پھر ایک اور مسئلہ سامنے آیا۔ اس کے پاؤ ں کی چھوٹی انگلی میں ہلکا ہلکا درد رہنے لگا۔اس نے دیکھا تو انگلی اندر کی طرف سے گل کر سفید ہو چکی تھی۔ اگرچہ تکلیف زیادہ نہ تھی لیکن چند ہی دنوں میں زخم خاصا بڑا ہو گیا۔
جس تیزی سے یہ زخم بن گیا ہے۔ اس نے گھر میں موجود مرہم لگانا شروع کر دیا لیکن پاؤں کا زخم ٹھیک نہ ہوا۔
شروع میں جاوید نے سوچا شاید دفتر میں حالیہ کشمکش کی وجہ سے وہ بادل نخواستہ اس نے کسی ڈاکٹر سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے ڈائریکٹری سے ایک مشہور ماہر ذیابیطس کا نمبر نوٹ کر کے فون کیا۔ جاوید نے کسی دوست سے سُن رکھا تھا کہ وہ ایک زبردست فزیشن ہیں۔
دوسری طرف کسی ریسپشنٹ نے فون اُٹھایا، ’’ہاں جی!‘‘
’’جی میں جاوید بول رہا ہوں اور ڈاکٹر صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آپ پرسوں چھ بجے آجائیں۔‘‘
اگرچہ جاوید کچھ اور معلومات لینا چاہتا تھا لیکن اس مختصر جواب کے ساتھ ہی دوسری طرف سے فون منقطع ہو گیا۔