جاوید خیالوں میں گم ڈاکٹر صاحب کے کمرے سے باہر آیا تو ریسیپشنسٹ نے انگشت شہادت کو انگوٹھے سے مسلتے ہوئے فیس کیلئے اشارہ کیا۔
’’فیس؟ میں توآج صرف رپورٹ دکھانے آیا تھا‘‘ جاوید نے کہا۔
’’فیس تو ہر دفعہ لی جاتی ہے‘‘ ریسیپشنسٹ نے بتایا۔
’’کتنی؟‘‘ جاوید نے ناگواری سے پوچھا۔
’’ایک ہزار‘‘ اس نے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو نچایا اور فضا میں بلند کر دیا۔‘‘
’’جاوید نے پیسے دے دیئے لیکن سوچا کہ ٹیسٹ رپورٹ دیکھنے پر دوبارہ پوری فیس لینا زیادتی ہے، اس کے خیال میں یہ ایک ہی مشورے کا تسلسل تھا، جاوید اپنا اعتبار بحال نہ رکھ سکا۔ وہ سوچنے لگا‘‘ کچھ ڈاکٹر صرف پیسے پر نظر رکھتے ہیں اور مقصد کو بھول جاتے ہیں، نا جانے کیوں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کرکٹر بال پر نظر رکھنے کی بجائے سکور بورڈ کو تکتا رہے، اس طرح تو وہ بہت جلد بولڈ ہو جائے گا‘‘۔
’’جب جاوید کلینک سے باہر آیا تو اسے اس بات کا بھی یقین نہ تھا کہ وہ ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ اس نے ذیابیطس سے متعلقہ دوا لی اور نہ ہی کسی سے ذکر کیا۔ جاوید کا خیال تھا کہ اسے محض معمولی زخم ہے اور خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ ذیابیطس کے مریضوں کا حال تو بہت برا ہوتا ہے جبکہ میرا زخم چند دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔
اگلے دن دفتر میں بھی اس کی طبیعت بوجھل رہی۔ اس حالت کو جاوید کے قریبی ساتھی افضل نے بھی محسوس کیا۔
’’جاوید صاحب! آپ تھکے تھکے سے لگ رہے ہیں، طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’افضل صاحب! خیریت ہی تو نہیں ہے، میں نے ایک ڈاکٹر صاحب کو دکھایا تھا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے شوگر ہے اور لیبارٹری کی رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ میری بلڈ شوگر بڑھی ہوئی ہے‘‘ جاوید نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ ڈاکٹر اور لیبارٹری والوں کی ملی بھگت ہے، ڈھکوسلے ہیں، آپ کو کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ افضل نے چہرے پر دنیا بھر کا فکر لاتے ہوئے کہا’’ آپ کو یاد ہے میری ٹانگ میں کتنا درد رہتا تھااور کون سے ڈاکٹر کو میں نے نہیں دکھایا؟ دوائی کھا لو تو وقتی طور پر درد کم ہو جاتا تھا اور پھر وہی تکلیف۔ مجھے تو جناب ہومیوپیتھی سے مستقل آرام آیا ہے، دیکھ لیں سال ہو گیا ہے اور مجھے بالکل آرام ہے، آپ آج شام ہی میرے ساتھ چلیں، افضل نے اصرار کیا۔