مقررہ دن ٹھیک چھ بجے وہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچ گیا۔ اس نے ایک چھوٹے سے کمرے میں چند لوگوں کو بیٹھے دیکھا۔ کمرے کے ایک کونے میں میز کے پیچھے ریسیپشنسٹ فون پر کسی سے گپ شپ میں مصروف تھا۔ جاوید اس کے پاس پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور فون کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ ریسیپشنسٹ نے جاوید کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے پہلے تو کچھ عرصے اپنی گپ شپ کا سلسلہ جاری رکھا، پھر فون پر ہاتھ رکھ کر بولا’’جی؟‘‘
’’میرا نام جاوید ہے اور آپ نے مجھے چھ بجے کی اپوائنٹمنٹ دی تھی۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب ابھی تشریف نہیں لائے، آپ بیٹھیں ‘‘ ریسیپشنسٹ نے مختصر جواب دیا اور دوبارہ فون پر مصروف ہو گیا۔
جاوید دیواروں سے لگے فو م کے بینچ پر بیٹھ گیا اور کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اتنے مشہور فزیشن کے ویٹنگ روم کی صفائی اور عمومی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ ایک دیوار پر پچھلے سال کا کیلنڈر لٹکا تھا۔
کچھ دیر بعد تقریباً پچاس سالہ بارعب شخصیت کمرے میں داخل ہوئی۔ ریسیپشنسٹ نے بھاگ کر ملحقہ کمرے کا دروازہ کھولا۔ ڈاکٹر صاحب مریضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ریسیپشنسٹ نے اپنے نزدیک بیٹھے ہوئے ایک شخص کواندر جانے کا اشارہ کیا۔
یہ بد نظمی جاوید کیلئے غیر متوقع نہیں تھی۔ وہ کوفت اور بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ کوئی پانچ منٹ بعد جب پہلا مریض باہر آیا توریسیپشنسٹ نے ایک دوسرے مریض کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ کافی انتظار کے بعد جاوید کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے ریسیپشنسٹ کو یاد دلایا کہ میرے ساتھ چھ بجے کا وقت مقرر تھا۔جاوید کی
جاوید ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ یہ کمرہ پہلے کمرے سے قدرے بہتر تھا۔ جاوید پہلو میں لگی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور ان کے فارغ ہونے کا نتظار کرنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے قلم رکھااور سر اُٹھا کر جاوید سے پوچھا، ’’جی بتائیں کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب میرے پاؤں میں ایک زخم ہو گیا ہے جو ٹھیک نہیں ہورہا‘‘ جاوید نے وٹ اتارتے ہوئے کہا۔
’’یہ زخم کب سے ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے پاؤں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کوئی 4 ہفتے سے‘‘ جاوید نے بتایا۔
’’ہوں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے غور کرتے ہوئے گہرے سانس بھرا اور نسخہ لکھنے لگے۔
’’آپ خون اور پیشاب کا یہ ٹیسٹ کروا لیں اور یہ دوا لینا شروع کریں۔ پاؤں کو روزانہ دن میں تین دفعہ صابن سے دھو کر یہ کریم لگائیں اور ٹیسٹ کے بعد دوبارہ آئیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
جاوید، ڈاکٹر صاحب کے کمرے سے باہر نکلا تو اس نے ریسیپشنسٹ سے فیس پوچھی۔
’’1000روپے‘‘ ریسیپشنسٹ نے جواب دیا۔ جاوید کو یہ فیس زیادہ لگی۔ ایک ماہر ذیابیطس کے حوالے سے اس کا پہلا تاثر منفی تھا۔
ناگواری کو محسوس کرتے ہوئے ریسیپشنسٹ نے اس کو اندر بجھوا دیا۔
دو دن بعد ٹیسٹ رپورٹ لے کر جاوید ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچا۔ حسب معمول کچھ انتظار کرنے کے بعد جب وہ ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب ٹیلی فون پر اپنی بیوی کو یقین دلا رہے تھے کہ وہ آج جلد گھر آ جائیں گے۔
فون رکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے سوالیہ انداز سے دیکھا تو جاوید نے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ ٹیسٹ لکھے تھے‘‘ جاوید نے رپورٹ اور نسخہ ڈاکٹر صاحب کو تھما دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک سرسری نظر رپورٹ پر ڈالی اور پھر کہا، ’’جاوید صاحب آپ کو ذیابیطس ہے، میں کچھ دوائیاں آپ کو لکھ دیتا ہوں، انہیں استعمال کریں اور میٹھے سے پرہیز کریں۔‘‘
’’ذیابیطس؟‘‘ جاوید نے حیرت سے کہا۔
’’مگر ڈاکٹر صاحب میرے تو پاؤں میں زخم ہے۔‘‘
’’جی ہاں! پاؤں پہ زخم ہونا اور اس کا مندمل نہ ہونا ذیابیطس کی ایک علامت ہو سکتی ہے، اسی لئے میں نے آپ کے ٹیسٹ کروائے تھے اور رپورٹ میں آپ کی شوگر کافی بڑھی ہوئی ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی۔
’’مجھے تو معلوم ہی نہ تھا‘‘ جاوید نے تعجب کا اظہار کیا۔
’’تو اب میں کیا کروں؟‘‘ جاوید نے پوچھا۔
’’آپ مجھ سے ملتے رہیں اور میری ہدایات پر عمل کریں، آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔